دہی دودھ سے کیوں
زیادہ مفید ہے؟
دہی دنیا کے اکثر خطوں میں بہ کثرت استعمال کیا جا تا ہے، یہ حقیقت ہے کہ دہی دودھ سے بھی زیادہ مفید ہے چونکہ دہی میں عفونت کو روکنے والے جراثیم پائے جاتے ہیں، اس لیے یہ غار کو تعفن اور میت سے بچاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسے بہترین غذا تسلیم کیا گیا ہے۔ یورپ کے ایک سرکردہ ڈاکٹر پروینی مکینی کان نے بلغام بیر کے دورہ کے دوران میں بلغاری لوگوں کی جبران نفرت اور درازی عمر کاسب در بافت کیا توانہیں معلوم ہوا کہ یہاں کے باشندے دہی بکثرت استعمال کرتے ہیں، چنانچہ انہوں نے دہی کےمتعلق تحقیقات وتجربات شروع کئے ان تجربات کا ماحصل درج ذیل ہے دودھ میں مختلف قسم کے جراثیم پائے جاتے ہیں ، ان میں سے بعض تو دودھ کے روشنی اجز الو کھلی رہ کرے ہیں ، مع اجزاء جنبیہ کو فاسد کرتے ہیں اور بعض اجزائے شکریہ پر عمل کرکے اسے ترشی میں بدل دیتے ہیں ،ان ترشی پیدا کرنے والے جراثیم میں سے بعض تو سرکہ پیدا کرتے ہیں اور بعض ایسڈ اور لیکٹک الیسٹر پیدا کرتے ہیں، جب ان کے اثر سے دودھ میں ترینی کی خاص مقام پیدا ہو جاتی ہے تو دور سے کے اجزائے جنبیہ تم جاتے ہیں جسے دودھ منایا پھٹنا کہتے ہیں یہ جبرایم دودھ کے فکری جوراو پل کرکے اسے لیکٹک ایسڈ میں تبدیلی کردیتے ہیں ، دہی کے دودھ سے زیادہ مفید ہونے کن یہی وجہ ہے کہ دودھ میں جو خاص قسم کی عفونت کور دکنے والے جراثیم ہوتے ہیں تری پیدا ہونے سے ان کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے ، یہ جراثیم بدبو پیدا کرنے والے جراثیم کو ہلاک کر دیتے ہیں ۔ ترشی پیدا کرنے والے جراثیم کے باعث دہی حوزی جراثیم سے قطعاً پاک وصاف ہوتا ہے اگر پانی وغیرہ کے ساتھ دوسرے جراثیم اس میں مل جائیں تو وہ نریشی کے انٹر سے ہلاک ہوجاتے ہیں، دہی میں ایسے جراثیم ہیں جن کی طبعی خاصیت یہ ہے کہ پیٹ میں جاتے ہی امراض پیدا کرنے والے جراثیم سے جنگ کر کے ان کو مغلوب کر لیتے ہیں معدے میں جا کر دہی کے یہ جراثیم غذا کے نششتی ور شکریہ 47 اجزاء کو ترسٹی میں تبدیلی کمر کے معدے اور آنتوں کو مضر جراثیم سے محفوظ رکھتے ہیں امن اور خمیر سے پیدا ہونے والے امراض اور بدی نمی داسهال وغیرہ میں رہی اسی وجہ سے فائدہ بخش ہے ۔ ڈاکٹروں کے نزدیک زندگی کیلئے غذا میں تین اجزاء کا ہونا ضروری ہے۔ مادہ ہائے اینروٹ جو جسم کو بنانے اور اس کی اصلاح میں کام آتے ہیں ۔ کوئلہ کے اجزاء جو بدن میں حرارت پیدا کرتے ہیں اور اسے برقرامدہ کھتے ہیں۔ پانی اور معدنی اجر او جو میرن کی ترکیب میں بے شمار کیمیائی تبدیلیوں کا ذریعہ ہیں اور بقائے زندگی کے لئے ضروری ہیں ۔ دودھ میں یہ تینوں اجزاء موجود ہوتے ہیں لیکن دہی میں دودھ سے بھی زیادہ مقدارمی پاۓ جاتے ہیں ، اسیلئے دہی دودھ سے نہ بادہ مفید ہے ، دہی کے استعمال سے تصرف تندیستی قائم رہتی ہے بلکہ بے شمار امراض سے نجات ملتی ہے اور عمر میں اضافہ ہو جاتا ہے وہی دل و دماغ اور انٹرویوں کو قوت بخشتا ہے ، بادی کو دور کرتا ہے ، دہی میں شکرملا کر پینان کام کیلئے مفید ہے گائے کا ہی تیش ہونے کے باوجود نهایت تردد ہم سے تپ دق پرانی کھانسی، دم اور بواسیریں بے حدمفید سے پیش اور شرینی کو دور کرتا ہے ۔ دہی عام جسمانی کمزوری اور خون کی کمی میں نہایت مفید ہے، جن لوگوں کو دوره ضم نہ ہوتا ہو، دہی ان کیلئے نہایت مفید ہے اور باسانی ہضم ہوجاتا ہے، اسکے علاوہ دہی میں دودھ کی نسبت دینی غذائیت ہوتی ہے، بچوں کے اسہال سل ، ضعف اعصاب کمی خون اور آنتوں کے امراض میں دہی غذا ہے اور دوا کی دوا، اس سے جسم پرورش پاتا ہے ،کمزوری اور ضعف کی شکایت رفع ہوتی ہے معدے اور آنتوں کا دریم تحلیل ہو جاتا ہے اور وزن میں اضافہ ہوتا ہے۔ دہی جمانے میں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ وہ خالص دودھ سے صاف دپاکیزہ برتن میں جمایا گیا ہو، دودھ والا اور تندرست ہو نا چا ہیئے اور جس برتن میں دودھ دوہاگیا اور وہ بھی پاک وصاف ہو، نہ یادہ ترش دہی بھی مفید نہیں ہوتا کیونکہ اس میں جو گھی موجود ہوتا ہے۔ اس کی ترکیب میں خرابی پیدا اور غذا کی صلاحیت تامل ہو جاتی ہے، اسکے علاوہ تریش دہی خون میں جوش پیدا تر کرتا اور اسکے استعمال سے کھانسی اور زکام ہوجاتا ہے لیکن دہی میں شکر ڈال کہ پینا گری کے ارکام میں مفید ہے۔
چھاچھ لسی
رہی اور کچھا کچھ میں ایسے جراثیم ہیں جن کی طبعی خاصیت یہ ہے کہ پیٹ میں جاتے ہی امراض پیدا کرنے والے جراثیم سے جنگ کر کے انہیں مغلوب کر لیتے ہیں اس لئے عمر انکا مقابلہ کرنے کے لئے چھاچھ بہترین چیز ہے ۔ اسے مرض سنگرہنی کا قاتل بیان کیا گیا ہے عینی جس طرح آگ خس وخاشاک کے انبار کو خاکستر کر دیتی ہے ،اسی طرح چھا چھ مرین سنگرہنی کو پینے دین سے آکھانڑ دیتی ہے بنگینی کا مرض قیمتی ادویہ کے استعمال سے بھی چھاچھ کے بغیرا چچا نہیں ہوتا صرف چھاچھ ہی بہت سے امراض کا تریاق اور اکثر دواؤں سے افضل ہے، سنگرہنی بیماروں کو ہمیشہ گائے کے دہی کی لسی پینی چاہیے ۔
چھاچھ میں لیکٹک پر اس کا انٹر نہایت عمدہ ہوتا ہے ، اس میں گوشت پیدا کرنے والے پروٹین کے نہایت لطیف فرات ہوتے ہیں ، اس لئے یہ دیگر اشیاء کی طرح ہضم ہونے میں ثقیل نہیں ہوتی ، یہ پر دئیں بہت جلد ہضم ہو جاتا ہے اور دوسری اشیاء کو بھی ہضم کرتا ہے اس کے استعمال سے تقتیل اور نا قابل ہضم غذاؤں کے ہضم ہونے میں مدد ملتی ہے، جن کو معدہ چھاچھ کی امداد کے بغیر ہضم کرنے سے عاجز ہوتا ہے ، چھاچھ میں کیلشیم میگنیشیم پروڈیم، سوڈیم، فاسفورس، کلورین ، سلفر وغیرہ نیک ہوتے ہیں اور یہ سب گوشت ایسٹر کی موجودگی کے باعث پیٹ میں گیس پیدا کرنے والے جراثیم اور ہڈی کی پیش کرنے والے ہیں ۔ ہے قائدہ طور پر بار بار کی چیزیں کھا جانے سے وہ اچھی طرح ہضم نہیں ہوتیں اور ان کا غیر اہم حصہ انٹریوں میں مڑنے لگتا ہے، لیکن چھاچھ کے پینے سے الوں میں خون کا دورہ بڑی تیزی سے اسے لگتا ہے اور وہ لام ماہنا اور مرادوں سے سات سمان - ام سے امت باشم زیاده ما است ہے ،اس ان اس اما سجاتی ہے اور اس کے استعمال سے بدن قوی اور مضبوط ما تا ہے، سهام عد الاستو بول دیاز کے افعال کو طاقت ملتی ہے ، ہر وقت منم ولی ہے اور فضلات انا و خارج ہوتے ہیں ، فرانس کے پاسٹیورٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر سمین نے تجربات کے اہیے کہا ہے کہ ہمالیہ کے استعمال سے بڑھاپا بل نہیں آتا جسم کی پروری کرنے کے نے چھاچھ اعلی درجہ کی غذا ہے تازہ اور میٹھی چھا تو پینے سے انتڑیوں میں زہر پیا کرنے والے جراثیم اور ہلاک ہو جاتے ہیں اور قوت ہاضمہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ چھان کی تاثیر سرد تر ہوتی ہے ، جس ہاتھ کو اچھی طرح بلوک مکھن نکال، اور پینا کمزور ہاضمہ دالوں کے لئے مفید ہے، جن کو اکثر نہ کام کی شکایت رہتا ہے ، کمر یا جوڑوں میں درد ہو، نیند زیادہ آتی ہو یا کوئی کبھی بخار آجاتا ہو، انہیں لسی پینے سے پینرلازم ہے بلغی طبیعت والے چھاچھ کے ساتھ سینٹ اور سیاہ مرچ ، اچانک میں تو بہت مفید ہے گرمی کی شکایت میں مصری ملا کر ہیں اور بادی میں نمک ملا کر پینا مفید ہے ۔
یا جائے وہ ہلکی ، زود ہضم اور طاقت بخش ہوتی ہے میں ہاتھ سے مکھن نہ نکالا جاتے، وہ دینم اور ثقیل ہوتی ہے البتہ بدن کو موٹا کرتی ہے ۔ مکھن نکالی ہوئی لستی جس میں دہی سے ایک تہائی یا چوتھائی پانی ڈالا گیا
.jpeg)
.jpeg)
0 Comments