آپ نہیں جانتے 


کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں ۔؟ اگر آپ اسے اچھی طرح سمجھ لیں تو آپ نہ صرف بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں، بلکہ صحت وطاقت اور حسن در شباب میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں ۔ ہمارے جسم کو اپنی قوت بحال رکھنے کیلئے چند خاص اجزاء اور عناصر کی ضرورت ہوتی ہے جن کے حاصل نہ ہونے سے جسمانی نظام درہم برہم ہو جا تا ہے ، غذا کا اولین مقصہ جسم  میں ان اجزاء کا بہم پہنچانا ہے جو اس کے تو دنیا اور اصلاح کے لئے نہایت ضروری ہیں، دوسرا مقصد جسم میں توانائی اور حرارت پیدا کرنے والے اجزاء کی فراہمی ہے ۔ اگر غذا ناقص ہو تو دہ جسم کو بیا جزا مہیا کرنے کی بجائے فاسد مادے پیدا کر کے ہماری صحت کو گھن کی طرح کھا لیتی ہے۔ اس لئے دانائی کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم غذاوں کے انتخاب میں پوری احتیاط سے کام لیں۔ انگریزی کا ایک مقولہ ہے کہ ہمارا جسم اس غذا سے تعمیر ہوتا ہے جو ہم روند آن استعمال کرتے ہیں۔ بالفاظ دیگر جوکچھ ہم کھاتے ہیں ، پیتے ہیں اسی سے ہمارے جسم کے اجزا بنتے ہیں اور نشر دنا حاصل کرتے ہیں۔ اس لئے ہمیں غذا کے بارے میں تمام ضروری معلومات حاصل ہونی چاہئیں ، ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ مختلف غذا میں کس طریق سے کس مقدارمیں اور کون کون سے اوقات پیراستعمال کی جائیں کہ جسمانی ضروریات پوری ہوتی رہیں۔ ہمیں یہ جاننا چاہیئے کہ جمہ چینی اہم پیٹ میں ڈال رہے ہیں وہ ہمارے جسم پر کیا اثر کرے گی اور فلاں صورت یا فلاں بیماری میں کون سی غذا موافق آئے گی ، اور کون سی مخالف ۔ فاضل ڈاکٹراس امر پر متفق ہیں کہ نہ صرف تندرستیں بلکہ مینوں کے لئے بھی دواؤں کی شیشیوں کی نسبت کھلی ہوا اور یہ غذا کہیں زیادہ صحت بخش ہے اسی لئے ۔ اس امر پر در دیتے ہیں کہ علاج بھی حتی الامکان غذا اور دوائی غذاؤں سے ہونا چاہیے۔

بقراط کا قول ہے کہ بیماری کا علاج سب سے پہلے غذاؤں کے ذریعے سے کرنا چاہیے۔ اگر اس سے فائدہ نہ ہو تو پھر نباتی اور حیوانی اور آخر میں معدنی ادویہ سے دینی چاہیے ۔ اور یہ امرواقع ہے کہ اچھی اور مناسب غذا ہرقسم کی دوا سے بہتر ہے، موجودہ دور کے مینشن زدہ لوگوں کا یہ عقیدہ غلط ہے کہ دوائیں ہر بیماری سے بچاتی ہیں محض دواہیں بیماریوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتیں ، مختلف امراض سے بچنے اور تندرست رہنے کیلئے علمی اصول اور صحت قائم رکھنے کی معلومات جاننا بہت ضروری ہے ۔




اس کتاب میں ان تمام غذاؤں کا ذکر کیا گیا ہے جنہیں ہم روزمرہ استعمال کرتے ہیں۔ ہم جو غذائیں کھاتے ہیں ان میں کون کون سے وٹامنز پائے جاتے ہیں اوران سے ہمیں کیا کیا فائدے اور نقصان ہوتے ہیں وہ کسی خوراک سے کس قدر طاقت حاصل ہوتی ہے ہے کون کون سی غذائیں ایک ساتھ نہیں کھانی چاہیں بے غرض غذا اور صحت و شاب کے متعلق وہ تمام باتیں وضاحت سے درج کی گئیں ہیں ،جن کا جاننا نہایت ضروری ہے لیکن جنہیں جاننے کا ہمیں خیال تک نہیں آتا ۔غذا کے علاوہ ہوا ، میشنی ، ورزش اور نیند بھی ہمارے جسم کی مناسب پرورش نشود نا اصلاح اور صحت کے لئے ضروری ہیں ۔ اسلئے انکے متعلق بھی معلومات پیش کی گئی ہیں اور ایسے طریقے قلم بند کئے گئے ہیں جن پر عمل کر کے صحت حسن اور شباب حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب عوام کے لئے مفید ثابت ہو گی اور آپ اسے خود پڑھنے کے بعد اپنے عزیزوں اور دوستوں کو پڑھنے کی تلقین کریں گے جن کی صحت آپ کو مریز ہے۔ 







جسم کی تعمیر کے لیے کن اجزا کی ضرورت ہوتی ہے ؟

   

ہمارے جسم نام کا یہ سرکاری غذا کے آئینہ دار ہوتے ہیں کسی انجن میں اگر ادی درجہ کا ایندھن استعمال کیا جائے تو اس کی کام کرنے کی صلاحیت یقیناً کم ہوجائے گی نہیں حال ہمارے جسم کا بھی ہے ۔ اگر ہمارے جسم کو مناسب حد تک قوت بخش غدا حاصل نہیں ہوتی تو اس کی تمام قوتیں کمزور ہو جاتی ہیں اور وہ ایک مضبوط جسم کی طرح زندگی کی جد وجہدانہ امراض کے مقابلے کی تاب نہیں لا سکتا۔

انسانی جسم کی نشو دنیا ایک مکان کا تعمیر سے مشابہت رکھتی ہے جب کوئی رکان بناناچاہتے ہیں تو مختلف تعمیری اشیا کو منتخب کرتے ہیں بنیاد کے لئے پتھر دیواروں کیلئے اینٹ ، دروازوں اور کھڑکیوں کے لیے لکڑی بغیر کسی اچھی یا بری عمارت کی تعمیر کا اتصال تعمیری اشیا کی اچھائی یا برائی پر ہوتا ہے ، باسکر : ما حال جسمانی عمارت کی نشوونما کا ہے اگر تعمیر ہو گی تو اسے ہمیشہ مرمت کی ضرورت پیش آتی رہے گی اور ہم آئے دن نی نی بیماریوں میں گھرے رہیں گے جسم کا سب سے با معمار ہماری قوت حیات ہے جس کے کئی ریکار ہیں۔ ان مرد گاروں میں سے نہایت اہم مددگار وٹامنز کہلاتے ہیں ، یہ ہم کے بنانے اور اس کی مرمت میں دو ہی کام انجام دیتے ہیں جو کسی مرکان کے بنانے میں سنگ تراش






 ہمارا دور بھتی ان کاریگروں کے ناموں کی وٹامنز کے بھی میرا جبرانام ہیں اور وہ وٹامنز اے، بی، سی، ڈی، ای کہلاتے ہیں ، ان میں سے ہر ایک جسم کی تعمیر میں ایک دوسرے کی مدد کرتا ہے ۔پروفیسر میری ہومز اور ڈاکٹر بوسٹن کی سالہا سال کی تحقیقات کے تاریخ غدا -اس امر کے شاہد ہیں کہ وٹامنز کی کمی سے جسمانی نشو ونما رک جاتی ہے اور رفتہ رفتہ جسم مزدہ ہو کر اس میں سے بیماریوں کے مقابلے کی قومت زائل ہو جاتی ہے، جب ہماری صحت بگ کی جاتی ہے تو پھر ہم ہوش میں آتے ہیں، لیکن بگڑی ہوئی صحت کا بنانا کوئی ایسا آسان نہیں ہوتا، اس لئے بطور حفظ ما تقدم ان امور کا لحاظ رکھنا چا ہیئے ، اولا بجائے سینکڑوں مرد پیر ادویات پر خرچ کرنے کے غذا اور صحت کے زریں اصولوں پر کام بند ہو کر امراض سے محفوظ رہنے کی کوشش کی جائے اس مقصد کے لئے ایسی غذائیں استعمال کی عائیں جن میں ہر قسم کے وٹامنز موجود ہوں خصوصا وٹامن اے کافی مقدار میں ہو ۔ تندرستی کے اصول میں غذا کو بڑی قدرت حاصل سے امراض کا مقابلہ کرنے میں غذا کا 80 فیصدی حصہ ہے اکثر امراض کے دفعیہ میں دوا کا صرف ۲۰ فیصدی حصہ ہوتا سے مفید سے مفید دوا بھی کارگر نہیں ہوسکتی اگر مریض کی غذا میت کے حالات کے مطابق نہ ہو رات دن محنت و مشقت کرنے سے ہمارے جسم کے بعض اجترا تحلیل ہوتے رہتے ہیں، ان اجزاء کی کمی پوری کرنے کے لئے صحت بخش غذا کا استعمال ضروری ہے ہماری جسمانی عمارت کی تعمیر ادریختگی کا انحصار غذا پر ہے چنانچہ روزمرہ کا مشاہرہ ہے کہ گر کسی کو متواترکئی روز تک کھانے کو نہ دیا جائے تو وہ کمزور لاغر ہوجاتا ہے ، اور رفتہ رفته یکمزوری دلاغری اس درجہ تک پہنچ جاتی ہے کہ روح قفس عنصری سے پرواز کرجاتی ہے۔ انڈین ریسرچ فنڈ ایسوسی ایشن نے طبی تحقیقات و تجربات سے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہندوستان میں نوے فیصدی امراض غذا کی خرابی کے باعث پیدا ہوتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر سر رابرٹ میکسکر ہیں کی تفریحات اور غذ اور صحت کے متعلق آل انڈیا پبلک ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کے فراہم کردہ بیش قیمت معلومات مزید قابل غور ہیں مثلاً جسمانی تندرستی مناسب غذا کی فراہمی پر منحصر ہے اور امراض کی نودنا اور ترقی مانا کے اس انتخاب پر لا بارک وائی دیتا ہے کہ غذا جسم انسان کے لئے ایام کے مترادف ہے کیونکہ ہماری روزمرہ کی ادا میں بعض طبعی او معدن مناصر، تیران مارے قسم کے ڈائر اره ی طور پر کائی مفکرار میں پائے جاتے ہیں اور جو مل جل کر سیاست پیدا کر تے ہیں ڈیم کے لئے ڈاکٹری اصطلاح ہیں " قوت کر دیا کرتے ہیں ہجران اجزاء کے موت صحت، تندرستی اور نشو ونما کا قیام قطعاً نا ممکن ہے ، بصورت دیگر اگر ہم میں ان اپنے ان کی کمی ہو جائے تور است برای صحت یاب ہو کر یہ مالی حالت بگڑ جاتی ہے اور جسم میں امراض کا مقابلہ کرنے کی قوت مفقود ہو جاتی ہے ۔غذا اور صحت کا نہایت قریبی تعلق ہے لیکن عام ہندوستانی غذا کے معاملے میں بہت بے پروا ہیں۔ ہمیں غذا کے معاملے میں بے حد احتیاط کی ضرورت ہے ، اور اس مقصد کے لئے علم غذاء سے واقفیت ضروری ہے، ہندوستان میں عموماً بے حد ناقص غذا استعمال کی جاتی ہے جو جسم انسانی کے تحفظ اور زندگی کے بقا کے لئے بالکل ناکافی ہوتی ہے ہمیں روزمرہ کی خوراک میں ایسی غذا استعمال کرنی چاہیے جس میں قوت کیش اجزا، اور وٹامنز، کافی مقدار میں ہوں تاکہ ہم بیماریوں سے محفوظ روسکیں اور جسم میں مدافعت امراض کی قوت پیدا ہوسکے۔ یہ امراض سے نیچے رہنے کا ایک قدرتی طریقہ ہے، لیکن ہندوستانی قدرتی علاج اور حفظ ماتقدم پر دواؤں کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں غذا اور غذائیت لازم وملزوم ہیں ، غذائیت کے بغیر غذا بالکل بے کار شے ہے الیز فنا کے غذائیت کا حصول ہی ممکن نہیں اسی طرح زندگی اور صحت کے ساتھ غذا کے عناصر حیات کا گہرا تعلق ہے اس لیئے ان کی مکی باغیر موجودگی کے باعث انسان متعدد امراض کا شکار ہو جاتا ہے ۔اکثر امراض غذا میں وٹامنز کی کمی کے باعث رونما ہوتے ہیں اس کے علاوہ بعض خاص خاص وٹامنز کی موجودگی بسا اوقات شد بر نقصانات پیدا کر دیتی ہے ادر اس طرح امراض کے مقابلہ میں انسانی جسم سے قوت مدافعت مفقود ہو جاتی ہے امراض کے مقابلے کی قوت کو برقرار رکھنے اور صحیح جسمانی تعمیر کے لئے ہماری غذا میں وٹامنز کے سادہ ایک خاص کیمیائی عنصر بھی پایا جاتا ہے، جسے ڈاکٹری کی اصطلاح میں پروٹین کہتے ہیں۔ انسانی جسم کی تعمیر میں پروٹین کا دیہی درجہ ہے جو ایک مکان بنانے میں اینٹوں کا ۔ گوشت اور خون ہماری خوراک کے پروٹین سے بنتے ہیں ۔ ساگ سبنری اور پھل میں پروٹین بہت کم ہوتی ہے ۔ بدن کو پروٹینی غذام سیا کرنے والی غذاؤں میں دودھ ، بالائی ، گوشت ، مچھلی، انڈا ،جو کا دلیہ ، بے چھنے آٹے کی روٹی ، آلو، سوریا بین ، مٹر مختلف دالیں اور پھلیاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں ، دودھ ، دہی چھاچھ گیہوں ، چنا ، مٹر اور دالوں میں پروٹین زیادہ ہوتی ہے ۔ مگر گوشت انڈے ، مچھلی، ماش کی دال اور سویابین میں بہت زیادہ ۔