مختلف غذائیں اورانکے غذائی اجزاء
گیہوں
نان عزادی میں جو چیز انسان کے استعمال میں سب سے زیادہ ہے اس میں ہم انسانی کی پرورش کے تمام اجزاء موجود ہیں ۔ جدید تحقیق کے گیہوں میں اجزائے لمحہ، اجزائے نشاسته، وٹامنز اور فاسفورس کی کافی مقدار پائی جاتی ہے البند اجزائے شمہ اور نمک کم ہوتے ہیں، گیہوں کے چھلکے مفید اجزاء پرمشتمل ہوتے ہیں اس لحاظ سے بہترین رونی ایسے آٹے کی ہوتی ہے جس میں گیہوں کے تمام اجزاء موجود ہوں، ایسا آٹا صرف ہاتھ کی چکی خراس با پن چکی ہی کا ہو سکتا ہے ، آج کل عام طور پرشینوں کا پیسا ہوا باریک آوا استعمال میں آتا ہے اور زیادہ پسند کیا جاتا ہے مگر مشین کی تیز حرکت گیہوں کے مفید چیز کوجلا دیتی ہے اور اس طرح وٹامنز ضائع ہو جاتے ہیں ، زیادہ باریک ہونے کی وجہ سے وہ بہت ثقیل اور دیر ہضم ہوتا ہے ، ایسے آٹے کی روٹی کھانے سے مختلف شکایات پیدا ہو جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فی زمانہ قبض کی شکایت تو اسی فیصدی آدمیوں کو رہتی ہے اس کے علاوہ اس آٹے سے آنتوں کے بہت سے امراض پیدا ہو جاتے ہیں خون پیدا کرنے کی صلاحیت تو اس آئے میں قطر نہیں ہوتی، اس کے برعکس ہاتھ کی چکی میا خراس سے پیسے ہوتے آٹے کی مروی کی اور زود ہضم ہوتی ہے ، عمدہ خون پیدا کرتی ہے اور دافع عین ہے۔ ان چھنے آٹے کی روٹی کھانا نہایت مفید ہے یہ آسانی سے ہضم ہو جاتا ہے اور۔ اس کے کھانے سے زخم معدہ ، ترنم باره انگشتی (آنت) قولنج ، سنگ مراده درم، سرسام ہڈیوں کی کمزوری اور قبض وغیرہ کی شکایات بہت کم پیدا ہوتی ہیں دراصل ان پچھنا آٹا کھانے سے معدے اور آنتوں کو غذا کی کافی مقدار بہم پہنچ جاتی ہے جس کے باعث ان کے اندر خمیر پیدا کرنے کی قوت اور غذا کے ہضم کرنے کی استعداد بڑھ جاتی ہے جنہیں مشین ہی کا آن ملتا ہو، وہ ان چھنے آٹے کی روٹی کریں اس طرح یہ روئی زود ہضم اور قبض کشا ہوگی ، گیہوں کی روٹی جسم کو مضبوط بناتی ہے ، دل ، دماغ اور آنکھوں کو طاقت بخشتی ہے ،خون گوشت اور مادہ تولید (دیج) پیدا کرتی ہے گیہوں کے آٹے سے سوجی در دا) اور میدہ حاصل کیا جاتا ہے ، ان سے مختلف قسم کی مٹھائیاں بنائی جاتی ہیں جو ثقیل اور دیر ہضم ہوئی میں گیہوں کا میدہ ثقیل اور قالین ہوتا ہے ،البتہ سوجا زود ہضم ہے اور اس میں غذائیت کجی نہ بادہ ہوتی ہے ۔
چاول
چاول ایک چوقانی بنی نوع انسان کی تحریر اک ہے اس میں نشاستہ کے اجزاء سب سے زیادہ اور نائٹروجنی اجزاء شکوں کی مقداما در روغنی اجزا بہت کم پائے جاتے ہیں ، چاول میں کیلشیم بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے چاول ہلکی اور زودتم غذا ہے لیکن جسم کو نشو و نمادینے والا جز د پروٹین اس میں بہت کم ہوتا ہے ۔ چاولوں کے متعلق اتنی احتیاط ضروری ہے کہ شین سے صاف کئے ہوئے چاول جنہیں سیلا چاول کہتے ہیں استعمال نہ کئے جائیں کیونکہ مشین میں صفائی کے دوران میں ان کا لطیف مچل کا ضائع ہو جاتا ہے جس میں وٹامن بی “ ہوتا ہے وٹامن بی ضائع ہونے کے بعد ان چاولوں کے کھانے سے مرض بیری بیری اندھا تا ہے ،اس کے انسداد کی بہترین تدبیر یہ ہے کہ مشین کے ذریعے سے صاف کئے ہوئے چاولوں کے بجائے اوکھلی میں ہاتھ سے کوٹ کر صاف کئے ہوئے چاول کھائے جائیں ۔
عام طور پر چاولوں کو ابال کر خشکہ تیار کیا جا تا ہے اور اس کی پیے کو بیکا سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے ،اس طرح چاول کا زوری جز د وٹامن بی پانی میں حل ہو کر ضائعہا جاتا ہے ، اس لئے بیچ کو چاولوں میں جذب کر دینا چاہیے، اطبا کے نزدیک بادلوں کی پیچ زود رفتم، ملین ، بھوک لگانے اور دافع صفرا ہے، پلاؤ خشکہ کی نسبجین اسی وجہ سے زیادہ تقویت بخش نہیں ہوتا کہ اس میں گوشت کی یخنی شامل کی جاتی ہے بلکہ اس کی قوت سنتی کامران بھی ہے کہ پلاؤ پکاتے وقت پیچ نہیں پھینکی جاتی ۔ چونکہ چاول دوسرے اناجوں سے کم طاقت بخش ہیں اس لئے چاولوں میں گھی یا مکھن ملا کہا نہیں دودھ کے ساتھ کھانا زیادہ مفید ہے اس سے ان کی غذایت بڑھ کر وٹامنز کی کمی پوری ہو جاتی ہے ۔ چاولوں میں دال شامل کر کے یا خشک عادل سبنری اور دال وغیرہ کے ساتھ کھائیں تو بی کی پوری ہو جاتی ہے لہندا جن لوگوں کی غذا نہ یادہ تر چاول ہو، انہیں یہ احتیاط کرنی چاہیئے کہ دودھ ادی انڈا، مچھلی ، گوشت اور سبنری کا استعمال رکھیں ، چونکہ چاولوں میں شحمی اجزا بھی کم ہوتے ہیں ، اس لئے ان میں گھی یا مکھن ملا کر کھانا چاہیے۔ کیونکہ گھی اویکھن میں وٹامن اے کی کافی مقدار ہوتی ہے ۔ چاول بطور غنا مسلسل کھانا صحت کے لئے مفید نہیں کیونکہ اس سے معدہ اور آنتیں پھیل جاتی ہیں ، قبض لاحق ہو جا تا ہے ، آنتوں میں تعمیر کی سی کیفیت پیدا حاق ہے ، جس سے سر ہضم اور نفع بھی ہو جا تا ہے، تو نہ بڑھ جاتی ہے اور جسم کھتا ہوجاتاہے۔ عادل بہت زود ہضم مگر قابض غذا ہے ، تاثیر کے لحاظ سے سردخشک ہیں گیری کو ٹالتے ہیں ، تپ دق اور سنگرہنی میں پرانے چپاول عمدہ غذا ہیں ، دست اور پیچش میں دہی بادل مفید ہیں ۔
باجرہ
باجرہ مشہور غلہ ہے عام طور پر اسے گرم خشک سمجھا جا تا ہے مگر حقیقتا سرد خشک قدرے قابض اور دیر ہاضم ہوتا ہے لیکن طاقت بخشتا اور خون بڑھاتا ۔ خشکی کے باعث بریلویت کو جذب کرتا اور گرمی کے اسہال کو روکتا ہے، پیشاب آور ہے، باجر کی روٹی کھا کر تھوڑا سا گڑ کھانے سے جلد ہضم ہو جا تا ہے ۔
جو
سرد خشک اور پیشاب آور ہے ،گرمی کے در دسر، پیاس اور جوش خون کو ارفع کرتا ہے، معدے کو طاقت دیتا ہے اور بادی بلغم کو دفع کرتا ہے، کھانسی کے پہلی کے درد سل ورق میں فائدہ مند ہے ، جو پانی میں بھگو کر چھلکا اتار کر دودھ میں کھیر تیار کی جائے تو وہ بدن کو موٹا کرتی ہے ،جو کے ستو گرمی اور پیاس کی زیادتی کو دور کرتے ہیں طبیعت کو ٹھنڈک پہنچتی ہے اور بدن کو طاقت حاصل ہوتی ہے، جو کی روٹی بنانی ہے ت کچھ گیہوں کا آنا ملانا پڑتا ہے گر گیہوں کی روٹی کے برابر غذائیت بخش اور زود ہضم نہیں ۔
جوار
سرد خشک غلہ ہے ، بھوک بڑھاتی اور پیشاب کی زیادتی کورد دار کہتی ہے ۔ چونکہ دیر ہضم ہوتی ہے اورا پیارا پیدا کرتی ہے اس لئے گھی اور میٹھے کے ساتھ استعمال کرنی چاہیئے۔ اس طرح جلد ہضم ہوتی اور طاقت بخشتی ہے ۔
مکئی
سرد خشک اور طاقت بخش غلہ ہے ،خون اور گوشت پیدا کرنی ، طاقت بھائی اور کھرے ہوتے جسم کو اعتدال پر لاتی ہے ، ا سا کی یہ دو گھی لگا کر کھانے ۔ خشکی نہیں پیدا کرتی مکئی کا تازہ بچھٹا بھون کر کھانا معدے کو طاقت دیتا اور خور پیدا کرتا ہے مکتی بہت مقوی غذا ہے ، اس میں روغنی اجزاء بہت زیادہ پائے ہیں۔ قدرے قبض پیدا کرتی ہے ۔
دالیں
پاکستاں کے ہر حصہ اور ہر قوم میں دالوں کو بطور غذا کھانے کا روائت ہے بعض قوموں کی تو مخصوص غذا ہی دالیں ہیں ،کئی قسم کی دالوں میں گیہوں سے چارگنا زیادہ اجزائے لمحہ اور اکثر میں وٹامنتر بھی ہوتے ہیں ان میں جسم کو بڑھانے والے محمون ، اور گوشت بنانے والے اجزا (پروٹین) کافی مقدار میں ہوتے ہیں۔ کے مقابلے میں دالوں میں نمکیات نمیادہ ہوتے ہیں ، دالوں میں فاسفورس الیٹ اور میگنیشیا نسبتاً کم ہوتا ہے ۔ روغنی اجزا کی مقدار بھی تھوڑی ہوتی ہے ۔ عام طور پر دالوں کو دھو کر اور چھلکا اتار کر پکایا جاتا ہے لیکن اس طرح وٹامنرضع ہو جاتے ہیں ، دالوں کی طاقت چھلکے میں پوشیدہ ہے لیکن لوگ پھلی ہوئی اور چھلکا اتری ہوئی رالیں پسند کرتے ہیں ، دھلی ہوئی دالوں کا پروٹین وٹامنز اور معدنیات کا بیشتر حصہ ضائع ہو جا تا ہے ۔جد میر تقیق کے مطابق بعض دالوں کو چھلکے سمیت اور تیز آپنے کی بجائے ترم آپنے پر پکانا چاہیے ، کیونکہ تیز آگ سے بہت سے مفید ا جتنا جل جاتے ہیں ۔ جو لوگ چاول کھانے کے عادی ہیں انہیں دال ضرور کھانی چاہیے کیونکہ چاولوں میں جزائے لمحہ گوشت پیدا کرنے والے اجزاء کم ہوتے ہیں اور دال سے یہ کی پوری ہو جاتی ہے، کھچڑی اس کی بہترین صورت ہے، دالوں میں کالی مربح سیاہ زیرہ اور بڑی الائچی ڈالنا مفید ہے سردیوں میں ادرک بھی ڈالی جاتی ہے مونگ کی دال نہایت مفیدہ ہے ، ماش ، چنے ، مسور اور لوبیا کی دالیں بھی مفید ہیں اور یہ گوشت کی بجائے استعمال کی جاسکتی ہیں کیونکہ ان میں عموماً اٹھارہ فیصدی اجزائے لمحہ ہوتے ہیں۔
.jpeg)
.jpeg)

.jpeg)
.jpeg)
.jpeg)
.jpeg)
.jpeg)
0 Comments